تجھ سا کب دوسرا نہیں موجود
دل میں اب حوصلہ نہیں موجود
بات ایسی ہو کیوں مرے لب پر
جس میں تیری رضا نہیں موجود
تونے یکسر بھلادیا مجھ کو
وہ جو احساس تھا، نہیں موجود
ظلم بے فکر ہو کے ڈھاتے ہو
دل میں خوفِ خدا نہیں موجود
ناؤ لہروں کو سونپ دوں کیونکر
کیا کوئی ناخدا نہیں موجود
بھول بیٹھا ہوں راستہ گھر کا
تجھ سا اب رہنما نہیں موجود
ایک تجھ کو ہی رب سے مانگا ہے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں موجود
دل میں یاسر کے دیکھ لے آکر
کچھ بھی تیرے سوا نہیں موجود
(معروف شاعرہ محترمہ رضوانہ سعید روز صاحبہ کے ردیف “نہیں موجود“ پر طرح آزمائی کی کوشش کی ہے)