فریب وقت جاری ہے گماں ہے نازنیں تم سا
حقیقت یہ کہ ہر لمحہ یہاں کا بے یقیں تم سا
ابھی اس نقش کو رہنے دے میری سوچ کا محور
کہاں سے ڈھونڈ کے لائیں گی یہ آنکھیں حسیں تم سا
تو سوچو کس قدر تفریق سے عالم مزین ہے
کوئی خاک آشنا مجھ سا کوئی مر مر نشیں تم سا
یہاں کچھ تم سے بھی بڑھ کر ہیں دیکھے پیار کے پیکر
مگر دل کا وہی فتوی نہیں کوئی نہیں تم سا
اسے میں باندھ کر رکھ لوں تنفس کے جھروکوں میں
کہیں جھونکا ہوا کا ہو اگر تازہ تریں تم سا