نہ آئیں گے نظر باغ و بہاراں ہم نہ کہتے تھے
ہُوا وِیراں نگر شہرِ نِگاراں، ہم نہ کہتے تھے
رہو گے شہر میں اپنے ہراساں، ہم نہ کہتے تھے
تمھارے گھررہیں گے تم کوزنداں ہم نہ کہتے تھے
نہ پاؤگے کسے بھی دُور تک، یوں بیکسی ہوگی!
ہراِک سے مت رہو دست وگریباں ہم نہ کہتے تھے
بشر کی زندگی سے یُوں محبّت روٹھ جائے گی
رہے گا ہاتھ میں کوئی نہ داماں، ہم نہ کہتے تھے
مذاہب کے اُصولوں کو بنا کر اپنی مرضی کے
جلا ڈالیں گے اِنساں ہی کو اِنساں، ہم نہ کہتے تھے
ہماری بات کا مطلب یونہی کچھ اخذ کرکے ہی !
رہے گا اِک زمانہ ہم سے نالاں، ہم نہ کہتے تھے
جنُونِ عشق کو، کیا کیا خلش یہ نام دے دے کر
پھرائیں گے ہمیں سب پابجولاں، ہم نہ کہتے تھے