نہ جھانکو آج دریچوں سے دروازہ کھلا ہے آجاؤ
Poet: شاکر شجاع آبادی By: اویس نون, Multanنہ جھانکو آج دریچوں سے دروازہ کھلا ہے آجاؤ
 کبھی استقبال جو کرتا تھا بیمار پڑا ہے آجاؤ
 
 ماتھے پہ پسینہ یادوں کا دل میں ہے بلا کی بے چینی
 دیدار کی حسرت آنکھوں میں ہونٹوں پہ دعا ہے آجاؤ
 
 ہاتھوں کی لکیریں نظروں کو کچھ بدلی بدلی لگتی ہیں
 کچھ راستہ برج ستاروں کا تبدیل ہوا ہے آجاؤ
 
 ہاں تم نے کہا تھا جب جانا کوئی چیز نشانی لے جانا
 ساحل پہ سفینہ سانسوں کا تیار کھڑا ہے آجاؤ
 
 کافر ہے جو آپ کے وعدے پر شاکر نہ یقین کرے لیکن
 احساس کے ہاں امیدوں کا دم ٹوٹ رہا ہے آجاؤ
More Love / Romantic Poetry







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 