نہ زمیں پر نہ آسماں پر ہے
میرے ہمدم تو اب کہاں پر ہے
چشم افلاک دیکھتی ہے مجھے
نام تیرا ہی اب زباں پر ہے
ڈوب جائے نہ یادکا منظر
آنکھ میری بھی بادباں پر ہے
میں نے کھیلا ہے کھیل مرضی سے
کیا کرے گا یہ اب جہاں پر ہے
اس کو دیکھوں گی شام ڈھلنے تک
اک پرندہ تو آسماں پر ہے
موت آئے گی اب مجھے وشمہ
روح قبروں کے آستاں پر ہے