نہ مجھ سے میری چُھڑا غریبی
ہے میری حاجت روا غریبی
کہ جب سے میں نے جنم لیا ہے
سبق ہے میں نے پڑھا غریبی
ہے اپنے قدموں پہ کیسے چلنا
گئی ہے مجھ کو سکھا غریبی
میں ساتھ اس کا نبھا رہا ہوں
ہے مجھ کو دیتی دعا غریبی
یہ ہے جو بچپن سے میری ساتھی
تو کیسے دوں میں بُھلا غریبی
وہ بندہ پیارا ہے اپنے رب کو
کہ جس کو دے دے خدا غریبی
زمانہ سارا ہی چھوڑ دے گا
مگر کرے گی وفا غریبی
اے لوگو اس سے نبھا کے دیکھو
کبھی نہ دے گی دغا غریبی
کہ جس پہ ناراض میرا رب ہو
ہے اس کو لگتی سزا غریبی
سمجھتا ہوں میں غریب کے دکھ
رہی ہے مجھ پہ سدا غریبی
مُـــــریدؔ مالک کی یہ عطا ہے
تُو اپنے دل سے لگا غریبی