نہ مجھ کو چھوڑ کر جانا کبھی ایسے خفا ہو کر
کہ زندہ رہ نہیں سکتے صنم تم سے جدا ہو کر
تنِ تنہا جفاؤں کا لبادہ اوڑھ بیٹھی ہوں
لٹا دی زندگی میں نے کسی کی التجا ہو کر
یہاں پردیس میں میں نے کئی اب روپ دھارے ہیں
کبھی اڑ کر اجالوں میں ، کبھی بادِ صبا ہو کر
مری دنیا کو تنہا کرکے کیسے جی سکو گے تم
تجھے ملنا ہے کیا جگ سے بتا اب بے وفا ہو کر
مرے دل کے مکیں ہو میری سانسوں کے امیں ہو تم
مرے ہونٹوں پہ رہتے ہو محبت کی دعا ہو کر
مری آنکھیں بچھی ہیں تیری راہوں میں اگر سمجھو
خدارا اب چلے آؤ مرے غم کی شفا ہو کر
مجھے دریا کی موجوں کے حوالے کر دیا وشمہ
یہاں دلدل میں اب تنہا بتا کیوں نا خدا ہو کر