نہ مسجدوں نہ کلیساؤں مندروں میں ملے
فقیر لوگ ہمیشہ قلندروں میں ملے
وہ جن کی کھوج میں بھٹکے ہیں ساحلوں پر لوگ
گہر یا سیپ ہمیشہ سمندروں میں ملے
وہ کوہ طور یا مسجد کو جائیں گے کیونکر
کہ جن کو روز خدا آ کے پتھروں میں ملے
زمانہ جن کی اڑانوں پہ رشک کرتا تھا
پرندے آج وہ ٹوٹے ہوۓ پروں میں ملے
وہ جن کا مذہب و منشور بس بھلائ تھا
وہ سچے لوگ پڑے آج مقبروں میں ملے
جنہیں بھکاری سمجھتا رہا زمانہ کبھی
وہ آج تخت پہ بیٹھے سکندروں میں ملے
کہ جن کو بیچ کے قسمت سنوار لی جاۓ
خزینے بیش بہا ایسے کھنڈروں میں ملے
سکون جتنا خدا نے ہے رکھا خیموں میں
نہ آسمان کو چھوتے ہوۓ گھروں میں ملے
نشہ جو یار کی آنکھیں ہیں بخشتی باقرؔ
سبو نہ جام نہ مے کے وہ ساغروں میں ملے