جو گزر گیا سو گزر گیا
نہیں وقت کا ہمیں انتظار
کوئی رنج ہے نہ ملال ہے
ہمیں یاد اس کی ستائے کیوں
اسے شوقِ ترک تعلقات
ہمیں ذوق صبر و ثبات ہے
نہ خفا ہوئے
نہ وفا کی شمع بجھی بجھی
وہ تو اک برس کا ہی خواب تھا
جو گزر گیا سو گزر گیا
مجھے اعتبار و یقین نہیں
کہ چلیں گے عشق کے بھر دیے
مرے ساتھ حادثہ جو ہوا
اسے یاد کرکے روؤں کیوں
جو گزر گیا سو گزر گیا