کسی کا یوں سہارا مل گیا ہے
کہ جیسے پھر کنارا مل گیا ہے
کرم کا پھر اشارا مل گیا ہے
اسے جب بھی پکارا مل گیا ہے
نہ ڈوبے گا سفینہ اب بھنور میں
سہارا جو تمہارا مل گیا ہے
کہیں پنہاں نظر سے اسکو دیکھا
کہیں وہ آشکارا مل گیا ہے
کوئی جگنو سا چمکتا ہے وفا کا
انہیں دل پھر ہمارا مل گیا ہے
بٹا ہے جو غم الفت جہاں میں
ہمیں سارے کا سارا مل گیا ہے
نہیں جچتا اسے رومی منافع
جسے ایسا خسارا مل گیا ہے