نہ لائی تم کو ، نہ لے کر خوشی کی آس آئی
تمہارے در سے صبا آج پھر اداس آئی
ہر اک خوشی مری مشروط غم کے ساتھ رہی
جہاں میں کوئی خوشی بھی نہ مجھ کو راس آئی
کھڑی رہی یونہی پیاسی لبِ سمندر میں
مرے لبوں سے مری آنکھ تک یہ پیاس آئی
میں کس طرح سے کروں اعتبار موسم کا ؟
خزاں پہن کے بہاروں کا پھر لباس آئی
ہوا میں پھیلی جو مانوس سی کوئی خوشبو
مرے وطن کی مجھے یاد پھر کپاس آئی
نظر اٹھا کے نہ دیکھا مجھے کبھی تو نے
بہار بن کے میں ہر بار تیرے پاس آئی
نجانے کیسی وہ پاکیزہ ساعتیں ہوں گی
کہ ماں کے حصے میں ممتا کی جب مٹھاس آئی
اس ایک شخص پہ عذراؔ نہیں ہے یہ موقوف
نظر مجھے تو یہ دنیا ہی نا سپاس آئی