وحشت دل اب ٹہر جا
مجھے نہ خاک میں ملا
الفت کے سرابوں کی
داستاں نہ بار بار سنا
راہیں جو ہم وار تھیں
کام وہ مشکل کر دیا
تو نے ہر بار ہی مجھے
ناکامیوں کا دیا پتا
زیست کی اس شاخ پر
گل آرزو نہ کھل سکا
روح میں درازیں پڑیں
جسم اور بھی منحنی ہوا
ناصر کا پیچھا چھوڑ دے
اسے نہ اور تو ستا