چاہت کی باتیں ، وہ چاہت کے قصے
سو ، لگتے سارے وہ ماضی کے حصے
بہت دور تک ہیں اجالوں کے دشمن
نہیں آج دکھتے وہ روشن سے رستے
ہیں ہر سمت ویرانیوں کے مناظر
کہاں جا لگے ہیں وہ جھولے وہ میلے
وہ گڑیا کی شادی وہ مہندی ، براتی
وہ بچپن سہانا وہ تختی ، وہ بستے
نہیں بھول سکتی میں جگنو پکڑنا
تعاقب میں جن کے تھے پاؤں پھسلتے
ترے سونے آنگن میں صدف غور سے سن
ابھرتے ہیں بچپن کے وہ گیت اب بھی
وہ وادی کی برفیلی ٹھنڈی سی راتیں
وہ کمرہ ، کتابیں ، سہانی سی یادیں
بزرگوں کی باتوں پہ حیرت دکھانا
وہ خود بھی ہسنا اور ان کو ہنسانا
میں نادان تب تھی
میں نادان اب ہوں
یہی میرے قصے
یہی میرے ورثے