فقرے جو چند ادا کئے شاید ادھار تھے
ورنہ تو لب پہ منتظر قصے ہزار تھے
پھولوں کو چھولیا تو کئی خار چھب گئے
ایک دو نہیں رقیب میرے بے شمار تھے
اڑتے ہوئے طاہر کو جو دیکھا سمجھ گئے
اپنے کئیں پہ اس کے محو انتظار تھے
تنگ دست جو ہوئے تو پھر تنہائیاں ملیں
ورنہ تو ہر محفل میں بھی اپنے کچھ یار تھے
روٹھا تھا میں یونہی مگر وہ چھوڑ کر چلے
صادق خبر نہ تھی وہ اتنے بے قرار تھے