وشمہ میں کیا کروں ترے حزن و ملال تھا
رہتی ہے جنگ اپنے ہی ذہن و خیال تھا
جب تیرا کرب میری نگاہوں میں بس گیا
اب واسطہ نہیں ہے کسی ماہ و سال تھا
بیٹھی ہوئی ہوں کب سے قیامت کی منتظر
چہرے کا رنگ زرد ہوا ہے ملال تھا
یوں دیکھتے ہی دیکھتے یہ عمر کٹ گئ
کتنی گزر گئی ہوں میں عجلت میں حال تھا
اس دل میں تیرے پیار کی دنیا سمیٹ کے
خود کو سنبھال رکھا ہے میں نے کمال تھا
اب زندگی یہ پیار کا نغمہ نہیں رہی
اب واسطہ نہیں ہے کسی سر سے تال تھا
آنکھوں کا میری جو کبھی تارا بنا رہا
اس کو چھپالیا ہے وٖفاؤں کی شال تھا
ڈھل جائے کاش میری فقیری میں زندگی
دھرتی ہلا کے رکھ دوں گی وشمہ دھمال تھا