جب مرا اس سے سامنا ہو گا
دمِ لب جانے کیا سے کیا ہو گا
سوچتا ہوں کہ اُس کی دنیا سے
نام تک میرا مٹ چکا ہو گا
وہ مروّت کا پاس رکھے گی
اپنا چہرہ اُداس رکھے گی
حال پھر یوں وہ پوچھتی ہو گی
ہو گیا جیسے حادثہ ہو گا
وہ سسکتی رہے گی اندر میں
آنکھ سے اشک بہہ پڑے ہوں گے
جذبہِ رحم آ گیا ہو گا
اور مرا دل تڑپ اُٹھا ہو گا
آخری بات بس یہی ہو گی
شاید اُس نے نہیں سنی ہو گی
کس سے کتنا جیا گیا اب تک
کوئی تو ہم میں مر گیا ہو گا
دمِ رخصت لبوں کو سی کر بھی
آنکھ سے خون بہہ رہا ہو گا
الوداع جب وہ کر چکی ہو گی
آخری سانس لے لیا ہو گا
پھر کسی کام کا کہاں ہو ہوش
جانے کیا کیا وہ سوچتی ہو گی
صبح پھر دیر سے اُٹھے گی وہ
رات بھر مجھ کو رو لیا ہو گا