وصل سے بھاگو گے گر بھاگ سکو گے لیکن
تم مگر بھاگ کے اس دل سے کہاں جاؤگے
دل کا کشکول لیے میں نے لگائی ہے صدا
اپنے در سے مجھے محروم نہ لو ٹاؤگے
زندگی گر نہیں تو موت مری کر لو قبول
کب تلک اپنی گلی میں مجھے بھٹکاؤ گے
ہر طرف سے مرے اوپر ہے طعن کی بوچھار
آتشِ ہجر میں تم بھی مجھے سلگاؤ گے
آ مرے خضر کہ دم ٹوٹ رہا ہے میرا
بعد از مرگ ہی کیا آب بقا لاؤ گے
ہجر سے کیوں نہ چھلک جائے مرا ظرف حیات
جب مئے وصل سے تم ہی مجھے ترساؤ گے