ہم سے ملنا ہے تجھے مشکل بہت
ٹوٹ کر ملتے نہیں ہیں دل بہت
وہ مجھے اپنا سمجھ پایا نہیں
جس کو میں سمجها مرے قابل بہت
اس غرورحسن کے آگے بهی کیوں
تهی طبیعت اپنی بهی مایل بہت
جو مجھے بهولا رہا آٹھوں پہر
تها مری یادوں میں وہ شامل بہت
پیکرِ حق کوئی بھی ملتا نہیں
ہیں یہاں پر پیکرِ باطل بہت
عقل کے اندھوں میں ہے ان کا شمار
خود کو جو کہتے رہے عاقل بہت
جس کے سینے میں کوئی دل ہی نہیں
اس پہ ہی آیا ہے میرا دل بہت
اس کو پانے کے لئے شام و سحر
ہم نے کی ہے سعی لا حاصل بہت
آ گئے ہو قاتلوں کے شہر میں
نور دلکش ہے یہاں قا تل بہت