خطاؤں کا حساب جفاؤں کا حساب
خاموش محبت کی صداؤں کا حساب
شبِ وصل سے لے کر شبِ ہجر تک
عطاؤں کا حساب سزاؤں کا حساب
ڈسے ہے مجھے یادِ ماضی تنہائی
بیتی ہوئی محبت دُعاؤں کا حساب
مانگوں کہاں سے میں کھوا ہوا چین
گزرے ہوے لمحوں عطاؤں کا حساب
چاہیے قرار کا بے قراری کا بھی
دواؤں کا حساب شفاؤں کا حساب
کہوں کیسے تجھے کہ آج محفل میں
مجھے دے تُو اپنی خطاؤں کا حساب
پوچھ لے ساجد ہاں اُس سنگدل سے
اب نرم و نازک وفاؤں کا حساب