وفائوں کی دُہائی دے کر
اپنی تم صفائی دے کر
ثابت کیا کرنا چاہتی ہو
اب زخموں کو دوائی دے کر
غموں کی جیل میں قید کیا پہلے
کومل دل کو زخم دیا پہلے
اپنا پن کیسے جاگ گی
کیوں آزاد کیا اب تم نے
قید سے رہائی دے کر
زخمِ محبت کے نشان باقی ہے
مرے تن میں جان باقی ہے
وہ ھی نکال لو اب
مشکتِ محبت کی مری
آنسو نگاہوں میں کمائی دے کر
نہال نہال کیوں چلاتی ہو اب جاناں!
قبر جیسی مجھے گہرائی دے کر۔