وفا کی آگ میں جلتا رہوں گا یہ تمنا ہے
گلہ شکوہ کبھی بھی نہ کروں گا یہ تمنا ہے
کبھی دیکھو یہ پروانے حضورِ شمع مٹتے ہیں
اُسی نادانی سے میں بھی مٹوں گا یہ تمنا ہے
لگی تو ایسی ہے جس کا پتہ اوروں کو کیسے ہو
میں تو بس ضبط کا ہی درس دوں گا یہ تمنا ہے
میرے دل کی کوئی حسرت بھلا دینا نہیں آساں
وہ مستحضر کراتا میں پھروں گا یہ تمنا ہے
نہ کوئی سنگ ہے یہ دل تو پھر کوئی ستائے کیوں
میں تو اشکوں سے ہی دامن بھروں گا یہ تمنا ہے
سلا کر پھر جگایا سینکڑوں برسوں کا تھا عرصہ
اسی قصے سے عبرت میں بھی لوں گا یہ تمنا ہے
کوئی آساں نہیں دل میں کبھی کوئی سما جائے
اسی سے اثر کو واقِف کروں گا یہ تمنا ہے