اب محبت کی وکالت نہیں کی جا سکتی
شہر بھر سے تو عداوت نہیں کی جا سکتی
میرا چہرہ میری آنکھیں ہیں سلامت اب بھی
کون کہتا ہے وضاحت نہیں کی جا سکتی
بات یہ ہے کہ کوئی ٹوٹ کے چاہے تو سہی
ہر کسی سے تو محبت نہیں کی جا سکتی
آنکھ کہتی ہے کہیں اور چلے جائیں ہم
دل یہ کہتا ہے کہ ہجرت نہیں کی جا سکتی
لوحِ دل پر یہی تحریر لکھی ہے لوگوں
عشق والوں کو نصیحت نہیں کی جا سکتی