منزل کی جستجو میں ہم بھٹکے مسافر ہی تو تھے
اک سد ہی تھی درمیاں وگرنہ ہم رفیق سفر ہی توتھے
اے اجنبی ہمسفر کیا وہ ملاقات تم بھول گۓ ؟
ستاروں کی سنگت میں کچھ دور ہم ساتھ چلےتھے
ہر سوطلسم چھا رہا تھا یوں لاج ہم کو آ رہی تھی
دور فلک پر شام و شب ہم آغوش ہو رہے تھے
یاد ہے وہ چاند کا شرمانا بد لیوں کی اوٹ سے
دور کہیں کچھ دیۓ جلےاور کچھ بجھے بھی تھے
رکا تھا کارواں شب بھر تاریک و خاموش فضا تھی
خوف تنہائ سے ہم سہمے کچھ جھجکے بھی تھے
سوکھے پتوں کی آہٹ پر یوں ہم لرزے بھی تھے
نیند سے بوجھل آنکھیں اورکچھ رت جگے بھی تھے
ما نا ہم اجنبی سہی تن کے سانولے پرمن کے اجلے
وہ سفر ہم بھولے نہیں گو تنہا ہم اور ہمسفر بھی تھے
آمد کرن سے ہوئی حوصلہ افزائی تو ہم یوں مسکراديۓ
پھر کبھی ملنے کی آس لیۓ سلامِ رُخصت ہوے تھے
بعدِ مدت اب ملے ہو تو منسوب کسی اور نام سے
یہ فریب ہی تو ہے گر کہوں ہم کبھی ملےہی نہ تھے
منزل کی جستجو میں ہم بھٹکے مسافر ہی تو تھے
اک سد ہی تھی درمیاں وگر نہ ہم رفیق سفرہی تو تھے