وہی عاشقی کا اتہاس اب بھی باقی ہے
شوق عشق ہمارے پاس اب بھی باقی ہے
تم نے جس راہ سے ہی رُخ موڑ لیا
اُسی منزل کا احساس اب بھی باقی ہے
بارشوں کو کہو کہ یوں نگاہیں نہ پھیرو
کئی مکانوں میں افلاس اب بھی باقی ہے
تکلیف میں کہیں بے تکلف نہ ہوئے لوگ
آنکھوں میں وہی اخلاص اب بھی باقی ہے
ملنا بیٹھنا یہ تسلسل تو چلتا ہی رہے گا
بات جو کہنی تھی خاص اب بھی باقی ہے
اُس نے لب چومے تو سانسیں ہی رُک گئی
جلتے بدن کی پیاس اب بھی باقی ہے