"وہ دے رہا ہے دلاسے جو عمر بھر کے مجھے"
وہ اب بھی خواب دکھاتا ہے اپنے گھر کے مجھے
تمہارے دل کے جہاں میں مقیم ہو نہ سکے
کبھی بھی شوق نہیں ہیں یہ مال و زر کے مجھے
وہ قربتوں کا زمانہ تو کب کا بیت چکا
وہ یاد آ رہے ہیں مسلسل ٹھہر ٹھہر کے مجھے
میں بھرتی رہتی ہوں چمن کی مانگ بھی ہر دم
دیار غیر میں گو درد ہیں ادھر کے مجھے
ہم ان کو پڑھ نہ سکے ، دور ان سے ہو بیٹھے
کیا ملا ہے اب آنکھوں میں پیار بھر کے مجھے
سنوارتے تو مقدر بھی کس طرح وشمہ
وہ تو چلا ہی گیا تھا اداس کر کے مجھے