وہ اتنا ہی قریب ہو گیا جتنا کبھی دور تھا
بچھڑنا تھا اتفاق ............ ملنا ضرور تھا
جس کے بنا میری زندگی میں اندھیر تھا
وہ شخص میرے ہاتھ کی اِک سنہری لکیر تھا
بستی کے سارے لوگ حامی و ہمنوا تھے
گھر بس رہا تھا ....... جو زیر تعمیر تھا
بیاہ کے لے گیا کسی شہزادی کی طرح
جو مجھ کو چاہتا تھا وہ لڑکا امیر تھا
ہم اب سےپہلےستاروں میں بس رہےتھےکہیں
اُتارے گئے زمیں پہ تو ملنا ناگزیر تھا
رعنا! دل ہار کے بھی یہ بازی مات نہیں
جو جیت کر گیا ہے میری وفا کا اسیر تھا