بہت کرتے ہیں کوشش بھولنے کی ان کو ہم لیکن
وہ اتنا یاد آتے ہیں کہ خود کو بھول جاتے ہیں
جو گلشن میں قدم رکھے بہاریں مسکراتی ہیں
کلیاں کھلکھلاتی ہیں سبھی گل جھوم جاتے ہیں
ان کی غزال آنکھوں میں محبت کا سمندر ہے
خود کو جتنا بچاتے ہیں ھم اتنا ڈوب جاتے ہیں
اگرچہ گفتگو ان سے بہت زیادہ نہیں ہوتی
مگر آنکھوں ہی آنکھوں میں بہت کچھ بول جاتے ہیں
بہت ہیں پاس وہ لیکن بظاہر دور رہتے ہیں
مگر نظروں ہی نظروں میں محبت گنگناتے ھیں کبھی
یوں بھی اترتے ہیں تخلیق کے لمحے میرے دل پر
کہ ہم اشعار کہتے ہیں اور بس پھر کہتے جاتے ہیں