وہ الفتوں کا زمانہ وہ ماہ و سال کہاں
اے زیست تیرے سفر میں نیا سوال کہاں
میں کہہ نہ پائی تجھے اپنے دل کی بات کبھی
کہ پہلے جیسا یہ اس زندگی کا حال کہاں
پکارتی ہیں مجھے تلخیاں زمانے کی
میں پیچھے دیکھوں مری ہمت و مجال کہاں
کیے تھے وقت کے سلطاں نے ہم پہ جتنے ستم
وہ ان کے جیسی زمانے میں اب مثال کہاں
ترے سلوک نے گستاخ کر دیا وشمہ
وگرنہ میری طبیعت میں اشتعال کہاں