وہ الہام جو ہتک کرے وہ کام میرے اصلاح میں نہیں
استدعائیں تو اور بھی ہیں نافرمانی میرے مداح میں نہیں
تیرے مانوس مقدر کی کہیں کوئی وسعت خالی ہے
یہ بخوبی کیسے کہیں کہ خدائی اس خدا میں نہیں
بڑی فراخ ہیں رغبتیں تم انہیں پاکر تو دیکھو
جو خودرو ملن میں ہے وہ ترغیب الوداع میں نہیں
اس آوارگی نے کئی دن باغوں کی باغبانی کی پھر
ایسے پھول چن کر لائی جو پھول اُس ردا میں نہیں
مجھ میں تم بسے تمہارا دامن گیر اور کون ہوگا
تمہیں اجاڑ کر وصال پاؤں یہ صدائیں میری صدا میں نہیں
کہیں عروج کہیں زوال، وقت کی ترغیب ہم کیا کریں
جس کا جیون ان کی آخرت ہم تو ابھی ابتدا میں نہیں