وہ اپنے ساتھ کے ساتھ، میں اکیلا
چھُوٹ گئے ہاتھ سے ہاتھ، میں اکیلا
لوٹتے پرندوں کسی نے جھونکا دیا
اُڑ گئے رات کے رات، میں اکیلا
الفت کے بعد وہ اکثر رہی جو
زمانے کی گھات پر گھات، میں اکیلا
نظر تو نظر سے بھی ملی مگر
بنی نہیں بات سے بات، میں اکیلا
زندگی تو باراں کی طرح برسی
پھر وہی مات سے مات، میں اکیلا
میری قسمت تو بس آہ غریبی
اُسے ملا بھاگ سے بھاگ، میں اکیلا