وہ بن سنور کے جو نکلے تو فضا پوچھتی ہے
یہ برق کس کے نشیمن کا پتا پوچھتی ہے
وہ زلف کھولدے تو رشک بھرے لہجے میں
یہ مجھ سا کون ہے ساون کی گھٹا پوچھتی ہے
وہ جس کو دیکھ لے خم کر کے نشیلی آنکھیں
شراب اس سے خجل ہو کے رضا پوچھتی ہے
وہ سادگی سے نگاہیں جو اٹھا کر دیکھے
تو حال چال مریضوں کا دوا پوچھتی ہے
وہ مسکرا کے عیادت جو دمِ مرگ کرے
تو کتنی دیر ٹھہر جاؤں قضا پوچھتی ہے
اسے پتہ ہے کہ وہ ایک ہے لاکھوں میں مگر
وہ اپنے بارے میں اوروں کا کہا پوچھتی ہے
وہ خود کو دیکھ کےآئینے میں شرماتی ہے
سہیلیوں سے مگر کیا ہے حیا پوچھتی ہے
بڑا رسیلا ہے منان تکلم اسکا
وہ درد دیکے تڑپنے کا مزہ پو چھتی ہے