وہ بھی کسی شب سویا تو ہوگا ستاروں کے ساتھ
کبھی درد سناکر رویا تو ہوگا آزاروں کے ساتھ
میں نے چمن کے چمن اجڑتے دیکھے ہیں
کوئی رنجشیں بوتا تو ہوگا بہاروں کے ساتھ
کسی کے رُخ کا یا اپنے ہی دکھ کا
انسان پہ اثر پڑتا تو ہوگا عیاروں کے ساتھ
یہاں تو گرد میں بہت دید بازی ہے
توُ بھی منظر کھوتا تو ہوگا نظاروں کے ساتھ
ان ویراں مکانوں میں رات بھر دیئے جلتے رہے
کوئی لمحے یاد کرتا تو ہوگا یادوں کے ساتھ
اپنی آنکھوں میں اتنے بحر رکھدیئے سنتوشؔ
تیرا داستاں بھی کوتاہ تو ہوگا کناروں کے ساتھ