سنہری دھوپ کے کنارے کہا ں تک آ پہنچے
وہ بہتے شام کے دھارے کہاں تک آ پہنچے
وہ تجلی حسن کی تھی یا بدن کا شعلہء تھا
یوں رخ پہ چاند ستارے کہاں تک آ پہنچے
وہ ٹہرا ایک سمندر تھا سلگتی نظروں میں
پھر آنکھوں میں خواب تمہارے کہاں تک آ پہنچے
نظر میں جلتے چراغوں کی روشنی سی رہی
اور وہ دیپ بن کے نظارے کہاں تک آ پہنچے
دل کی بستی میں ہلچل تھی تمہارے جلوؤں کی
پھر یوں چلتے در پر تمہارے کہاں تک آ پہنچے