وہ بے مثال ہی حسن و جمال رکھتا ہے
خزاں کی رُت کو مصیبت میں ڈال رکھتا ہے
چلے جو وہ نجومی بھی زائچے دیکھیں
زمین پر بھی ستاروں کی چال رکھتا ہے
وہ جس کا سامنا کرنے سے چاند گھبرائے
رُخِ نفیس پہ سورج سے گال رکھتا ہے
صبا بھی ساتھ سلیقے کے چھیڑتی ہے اُسے
وہ موسمِ گلِ لالہ کی فال رکھتا ہے
ہے اُس کی مست طبیعت وہ خوش سخن بھی تو ہے
جو لفظ لفظ سے گوہر نکال رکھتا ہے
گلوں کے رس پہ پلی تتلیاں بھی رشک کریں
وہ جب بھی شانوں پہ ریشم کی شال رکھتا ہے
وہ تیری روح کا مالک نہ تیرے جسم کا ہے
فدا تُو دھول بھی جس کی سنبھال رکھتا ہے