اک تمنا تھی دل میں
جو آنکھوں سے ظاہر ہوتی تھی
جو کبھی کبھی لفظوں میں ڈھل جاتی تھی
جو کبھی انکار کی صورت
کبھی اقرار کی صورت
پڑے پیار سے تجھ پے بکھر جاتی تھی
جب تم چلتے تھے ساحل کنارے پر
جو پڑ جاتے تھے
نشان تمہارے قدموں کے
وہ ُان پے دبے پاوں چل کر
تمہارے گھر تک جاتی تھی
جو تمہیں چھونے کی خاطر
ہوائوں سے لڑ جاتی تھی
وہ تو چودھیوی رات کے چاند کی چاندی تھی
جو ہر بار ہی اپنے چاند پے مر جاتی تھی