وہ درد دیکر شراب سے منع کرتا تھا
میرا چاند مجھے خواب سے منع کرتا تھا
تیرے ملن لیئے کس کس سے ملن ہوئا
میرا ضمیر تو اِس بات سے منع کرتا تھا
سائل کے سوال اب بھی ویسے ہی ہیں
جس کے توُ ہر جواب سے منع کرتا تھا
جینے کو اور بھی جزائیں ہو تو دے بھیجو
کون ہے جو اک عذاب سے منع کرتا تھا
ہر زباں پر میرا نام اُس کے ساتھ آیا
مگر وہ سخی تو خطاب سے منع کرتا تھا
نینوں کی صراحی چھلکنے کے بعد سنتوشؔ
ہر اشک مجھے فساد سے منع کرتا تھا