وہ دل کا برا نہ بے وفا تھا
Poet: Mohsan Naqvi By: Smile Pain, jehlumوہ دل کا برا نہ بے وفا تھا
بس مجھ سے یونہی بچھڑ گیا تھا
لفظوں کی حدوں سے ماورا تھا
اب کس سے کہوں وہ شخص کیا تھا
وہ میری غزل کا آئینہ تھا
ہر شخص یہ بات جانتا تھا
ہر سمت اُسی کا تذکرہ تھا
ہر دل میں وہ جیسے بس رہا تھا
میں اُس کی انا کا آسرا تھا
وہ مجھ سے کبھی نہ روٹھتا تھا
میں دھوپ کے بن میں جل رہا تھا
وہ سایہ ابر بن گیا تھا
میں بانجھ رتوں کا آشنا تھا
وہ موسمِ گُل کا ذائقہ تھا
اک بار بچھڑ کے جب ملا تھا
وہ مجھ سے لپٹ کے رو پڑا تھا
کیا کچھ نہ اُسے کہا گیا تھا
اُس نے تو لبوں کو سی لیا تھا
وہ چاند کا ہمسفر تھا شائد
راتوں کو تمام جاگتا تھا
ہونٹوں میں گُلوں کی نرم خوشبو
باتوں میں تو شہد گھولتا تھا
کہنے کو جدا تھا مجھ سے لیکن
وہ میری رگوں میں گونجتا تھا
اُس نے جو کہا کیا وہ دل نے
انکار کا کس میں حوصلہ تھا
یوں دل میں تھی یاد اُس کی جیسے
مسجد میں چراغ جل رہا تھا
مت پوچھ حجاب کے قرینے
وہ مجھ سے بھی کم ہی کُھل سکا تھا
اُس دن میرا دل بھی تھا پریشاں
وہ بھی میرے دل سے کچھ خفا تھا
میں بھی تھا ڈرا ہوا سا لیکن
رنگ اُس کا بھی کچھ اُڑا اُڑا تھا
اک خوف سا ہجر کی رتوں کا
دونوں پہ محیط ہو چلا تھا
اک راہ سے میں بھی تھا گریزاں
اک موڑ پہ وہ بھی رک گیا تھا
اک پل میں جھپک گئیں جو آنکھیں
منظر ہی نظر میں دوسرا تھا
سوچا تو ٹھہر گئے زمانے
دیکھا تو وہ دور جا چکا تھا
قدموں سے زمیں سرک گئی تھی
سورج کا بھی رنگ سانولا تھا
چلتے ہوئے لوگ رُک گئے تھے
ٹھہرا ہو شہر گھومتا تھا
سہمے ہوئے پیڑ کانپتے تھے
پتّوں میں ہراس رینگتا تھا
رکھتا تھا میں جس میں خواب اپنے
وہ کانچ کا گھر چٹخ گیا تھا
ہم دونوں کا دکھ تھا ایک جیسا
احساس مگر جدا جدا تھا
کل شب وہ ملا تھا دوستوں
کہتے ہیں اداس لگ رہا تھا
محسن یہ غزل کہہ رہی ہے
شائد تیرا دل دُکھا ہوا تھا
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






