وہ رابطے بھی انوکھے جو آکے بیٹھے ہیں
وہ قربتیں بھی نرالی سجا کے بیٹھے ہیں
سوال بن کے سلگتے ہیں رات بھر تارے
کہاں ہے نیند ہماری وہ آکے بیٹھے ہیں
بلاتا رہتا ہے جنگل ہمیں بہانوں سے
سنیں جو اس کی نہیں جو سنا کے بیٹھے ہیں
چراغ بزم ستم ہیں ہمارا حال نہ پوچھ
جلے تھے شام سے پہلے بجھا کے بیٹھے ہیں
یہ رات کچھ بھی نہیں تھی یہ رات سب کچھ ہے
طلوع جام سے پہلے اٹھا کے بیٹھے ہیں
پھسلتی جاتی ہے ہاتھوں سے ریت لمحوں کی
تمہارے نام سے پہلے جلا کے بیٹھے ہیں
حقیقتوں کا بدلنا تو خواب ہے وشمہ
مگر یہ خواب ہے ایسا اڑا کے بیٹھے ہیں