وہ سامنے کھڑی ہے منزل دیکھو
اس طرف ہے ہجر رفتہ دیکھو
پاؤں چھلنی ہو رہے ہیں چلتے چلتے
ہر سو سماں ہے ہم پہ ہنستا دیکھو
پار اتر ہی گئے سمندر سے آگ کے
اب وجود ہے سارا جلتا دیکھو
برس گیا ہے ابر و باراں لیکن اب
ان کالی گھٹاؤں کو ﮈھلتا دیکھو
بھونک رہے ہیں آوارہ کتے گلیوں کے
بدن کو ﮈھانپو اور اپنا رستہ دیکھو