وہ شب کہ جس میں
تو آئی تھی بال کھولے ہوئے
ترا بدن تھا کہ
دہکا ہوا تھا انگارہ
عجب خمار سا چھایا تھا تیری آنکھوں میں
اوراک الاؤ سا جلتا تھا
تیری سانسوں میں
قریب آ کے جو دھیرے سے
ہاتھ تھاما مرا
مرے وجود میں
شعلے سے جل اٹھے تھے کئی
نظر اٹھا کے جو میں نے
تری طرف دیکھا
تھی تیری آنکھوں میں اک
خود سپردگی کی لہر
فضا تھی بھیگی ہوئی
رات کا تھا پچھلا پہر
تھیں تھہری ٹھہری سی
سرگوشیاں سناٹے میں
تھا کھویا کھویا سا لحجہ
کسی تصور میں
وہ شب نہ اے مری محبوب! بھول پاؤں گا
وہ شب کہ
چاند کی کرنوں میں بھی حرارت تھی
فضا میں شوخی ، ہواؤں میں اک شرارت تھی
امنڈ رہے تھے ہزاروں
طوفان سینے میں
جو تھوڑی دیر
سکوں کے لیے ترستے تھے
خواہشیں تھیں کہ
اس رات سر اٹھاتی تھیں
بدن سلگتے تھے روحوں میں
کسمساہٹ تھی
پگھل پگھل سی گئی
شمعء بدن اس شب
جوان شعلوں کا
آتش فشاں سلگتا رہا
وفا کا ایک نیا
روپ ہم نے دیکھا تھا
رفاقتوں کا مزہ اور ہم نے پایا تھا
وہ شب کہ
جس میں محبت نے پائی تھی منزل
وہ شب کہ
جس میں مکمل تھی مجھ کو تو حاصل
وہ شب نہ اے مری محبوب ! بھول پاؤں گا