وہ شخص اتنا پیارا تھا کہ اسے ہم کیا کہتے
نہ اس کے بن گزارا تھا اسے ہم کیا کہتے
کب ممکن تھا ترک تعلق اس سے
ہماری زندگی کا وہ سہارا تھا اسے ہم کیا کہتے
در بدر کی ٹھوکریں کھا تے پھرتے ہیں
کبھی وہ بھی یار ہمارا تھا اسے ہم کیا کہتے
اسے یقین نہیں تھا ہماری محبت کا
ہمیں اسکا ہر ستم گوارا تھا اسے ہم کیا کہتے
وہ بھول گیا ہے سب رشتے ناتے
ہم پر تو اس کا اجارہ تھا اسے ہم کیا کہتے
جس کے دل میں خاطر ہمارے نفرت ہی رہی
وہ ہماری آنکھ کا تارا تھا اسے ہم کیا کہتے