جو آنے والے کل کا بھی زمانہ بھول جاتے ہیں
وہ صحرائے انا میں مسکرانا بھول جاتے ہیں
یہ اس دورِ کشاکش نے تو یوں رکھا ہے ٹھوکر پر
کہانی سیل غم کی اب سنانا بھول جاتے ہیں
ترا دیدار حاصل ہے مگر ہجرت کے موسم میں
یوں جس منصب پہ فائز ہیں بتانا بھول جاتے ہیں
جو ذہن و دل میں زہریلی ہوا کے تیر چلتے ہیں
تری یادوں کے پتھر بھی اٹھانا بھول جاتے ہیں
انہیں غیروں کی بستی میں نہیں ملتی کبھی عزت
جو اپنے ملک و ملت کا ترانہ بھول جاتے ہیں
خزاں جب وار کرتی ہے شجر گرتے ہیں گلشن میں
پرندے ایسے میں سب آب و دانہ بھول جاتے ہیں
جو رہتے ہیں گھٹن کے دائروں میں ہی سدا وشمہ
حصارِ جسم سے باہر وہ آنا بھول جاتے ہیں