نظر کے سامنے جو چہرہ تھا خواب جیسا تھا
وہ کیسے مجھ میں سماتا جو سراب جیسا تھا
میرا وہ راتوں کی تنہائیوں میں یوں بکھر جانا
میرے بدن کو جو جلاتا تھا وہ آگ جیسا تھا
لفظ ھونٹوں پے یوں مچلتے راگنی کی طرح
اور وہ کھنکھتا لہجہ اس کا رباب جیسا تھا
تھی روشنی جس سے میرے شہر کی گلیوں میں
وہ چہرہ مثل سخن ماھتاب جیسا تھا