جب قربت ملی تو کہہ دیا کہ خود کو دور رکھو
چھونا جو چاہا تو کہہ دیا جذبات پہ قابو رکھو
ہم سے بچھڑ کے وہ کتنا ہو چکا تھا نخیف
سہارا دینا چاہا کہ میرے کاندھے پہ بازو رکھو
بکھر کے بھی اُسکی مَیں مِیں وُہی مَیں تھی
جھٹکا کے کہا کہ تُم تو اپنا بازو دور ہی رکھو
بے اختیار آنسو جو نکلے تو ظالم نے کہہ دیا
کچھ بچا کے پھر کے لئے آنکھ میں آنسو رکھو
وہ محبوب نہیں رہا اب اپنا، مگر دوست تو ہے
جاوید! قائم اُس سے یہ تعلق ہی بہر سو رکھو