وہ نوحہ بن کے رلا رہے ہو
تبھی تو لب پہ دعا رہے ہو
وہ مجھ کو دیتا ہے دے رہا ہے
جو ایک پل بھی جدا رہے ہو
عزاب جاں کا صلہ نہ مانگو
ابھی تمہیں جو دکھا رہے ہو
اداس چہرے سوال آنکھیں
یہ میرا شہرِ وفا رہے ہو
یہ بستیاں جس نے راکھ کر دیں
چراغ ہے وہ جلا رہے ہو
کوئی تو لحمہ سکون دے دے
یہ زندگی ہے سزا رہے ہو
گمان وشمہ یہ کہہ رہی ہے
کہ اس کو شاہد چھپا رہے ہو