وہ پاکیزگی بیاں کرکے بھی اکتاتا نہیں
کس اَفراط میں تڑپ رہا ہے بتاتا نہیں
اگر شوق ہے تو، بے قراری بھی کم نہیں
مگر حماقت سے کسی کا دل دکھاتا نہیں
رسوم کے پیروی میں سب عکس دھندلے
یہ حقیقت کوئی بھی شاید جانتا نہیں
قصور یہ کہ آمیزش سے محروم ہیں
کتنا لاپرواہ ہے وقت کہ کٹتا نہیں
یا تقدیر کا چہلم ہم سے فراموش رہا!
یا وہ جادوگر کوئی قزاق جانتا نہیں
ہم نے اپنی سرحدوں میں پت جھڑ پائی
بہاروں کا تصور پھر سے آتا نہیں