وہ پتھر کسی آنکھ کا تارہ نہیں ھونے ولا
تم بھی یہ جان لو وہ تمھارا نہیں ھونے والا
وہ اپنی مثال آپ ھے سو اسکی مثال میں
چاند۔۔ پھول۔۔ کچھ بھی استعا رہ نہیں ھونے والا
پڑھائی کیلئے شہر جانے والا سیدھا سادھا دیہاتی
اب کبھی بوڑھی ماں کا سہا را نہیں ھونے والا
ایک در، وہ دربدر، ھوا گھر سے بے گھر
تم تو کہتے تھے وہ آوارہ نہیں ھونے والا
تجارت کیجئے محبت کی ، کہ اجڑ کر بھی
محبت میں کسی بھی صورت خسارا نہیں ھونے والا
بٹ گیا ھوں میں ہجرتوں میں یہاں وہاں
میں تیرا ھو بھی جاؤں تو سارا نہیں ھونے والا
گرہ لگانے سے کچھ نھیں ھونا ،میاں صاف کہو
کہ 'انکا آپس میں گزارہ نھیں ھونے والا'
چودھویں کی رات ،آسمان بے نور، پہلو میں حضور
کسی قلندر کو دوبارہ ایسا نظارہ نہیں ھونے والا
یہ بستی ھے بد روحوں کی بستی
یہاں روح پرور نظارہ نہیں ھونے والا
انہونیوں کا معترف ھوں پھر بھی یہ طے ھے
اب فیضیؔ کم سے کم تمھارا نہیں ھونے والا