وہ کون ہے جو زندگی کو ایک جیسا بنائے بیٹھا
وہ کون ہے جو شاعری کو پیشہ بنائے بیٹھا
کہیں جہاں کی بے وفائی تحریر ہو جاتی ہے
کبھی میری جفائی بھی تقریر بن جاتی ہے
بس نیندیں اڑتی ہیں تو لکھ لیتے ہیں
کبھی الجھنیں بڑھتی ہیں تو لکھ لیتے ہیں
کوئی سرگردان جو دھڑکنوں کو رعشہ بنائے بیٹھا
یہ حرف کہیں حجتوں سے رہائی نہیں کرتے
اپنے ظرف کسی کی چشم نمائی نہیں کرتے
کچھ مُرادیں سلگتی ہیں تو لکھ لیتے ہیں
یا یادیں کروٹ بدلتی ہیں تو لکھ لیتے ہیں
کوئی عاجز حال زار کو وئشیہ بنائے بیٹھا
کچھ خلشیں قلم کی نوک کو مجبور کرتی ہیں
آئے دن سوچیں ہر سوچ کو مغرور کرتی ہیں
ہاں یہ راحتیں ڈھلتی ہیں تو لکھ لیتے ہیں
یا تیری چاہتیں بدلتی ہیں تو لکھ لیتے ہیں
سنتوشؔ تُو بلاوجہ دل کو سیشہ بنائے بیٹھا