وہ کیوں یاد آتے ہیں؟
Poet: محسن علی محسن By: ڈاکٹر محمد محسن, کراچیذرا محسن بتاؤ نہ
وہ کیوں یاد آتے ہیں
کیوں اتنا ستاتے ہیں؟
کبھی وہ بن کر یادیں
وہ کی ہوئی باتیں
جب یاد آتیں ہیں، چین لوٹ جاتی ہیں
تمنا برپا ہوتی ہے،
انہی پھر سے پانے کی، انہیں اپنا بنانے کی
انہیں دل میں بسانے کی، خود کو ان پر لٹانے کی
پر جب سوچتا میں ہوں، رویہ اس بے وفا کا تو
مجھے وحشت سی آتی ہے، مجھے دہشت دلاتی ہے
وہ اس کا رقیبوں سے، یوں ہنس بول کر ملنا
ہم سے بے پرواہ ہوکر، ان سے ملن رکھنا
جب یہ لمحے یاد آتے ہیں
کیوں اتنا ستاتے ہیں؟
وہ کیوں یاد آتے ہیں؟
کیوں اتنا ستاتے ہیں؟
یوں ہوتے ہم منتظر ان کے
ہمارا ہر پل نظر ان کے
کبھی چہرے پر خوشی ہوتی مگر اشک اندر تھے
گویا سکوں میں تھے پر غم کے سمندر تھے
وہ طعنے دینے والے، تجھے سچ ہی تو کہتے تھے
کہ تیرا وہ نہیں ہے رے
اسے محبت نہیں ہے رے
اسے الفت نہیں ہے رے
وہ تجھ کو آزماتا ہے
تیرا دل دُکھاتا ہے
تجھے الّو بناتا ہے
یا تجھ کو ستاتا ہے
مگر ہم مشتاق تھے ان کے
سچے عشاق تھے ان کے
کیا غور و فکر کرتے؟
بس دل انکی نظر کرتے
مگر حقیقت جب کھلی ہے تو
ذرا محسن بتاو نہ
وہ کیوں یاد آتے ہیں؟
کیوں اتنا ستاتے ہیں؟
کیوں اتنا ستاتے ہیں؟
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






