وہ ہنساتے رہے ، وہ رلاتے رہے
وہ اشاروں پہ ہم کو نچاتے رہے
ہنس کے محفل میں اُن کا بھرم رکھ لیا
اور فرقت میں آنسو بہاتے رہے
ایک پل میں وہ آ کر چلے بھی گئے
ہم زمانوں سے جن کو بلاتے رہے
آج ان کو بہاروں سے کانٹے ملے
جو خزاؤں میں بھی گل کھلاتے رہے
ہم تڑپتے رہے موجِ طوفان میں
وہ کناروں سے ہم کو بلاتے رہے
نا امیدی کے کنکر لیے ہاتھ میں
ہم منڈیروں سے کاگا اڑاتے رہے
اپنی منزل کا ہم کو نشاں نہ ملا
گرد راہوں میں برسوں اڑاتے رہے
اس کے آثار چہرے پہ آ ہی گئے
راز سینے میں جو ہم چھپاتے رہے
گھاؤ دینا فقط ان کی فطرت میں تھا
پھر بھی دیپک انھیں آزماتے رہے